Breaking News

Bhook Aur Bybas Mamta By Zunaira Riaz Article


Bhook Aur Bybas Mamta By Zunaira Riaz Article 

Novels Bibliophile presents a new Urdu Social Romantic Novel by Writer...

Zunaira Riaz is a new social writer. Her unique writing style must grab your attention. 

Novels Bibliophile give a platform for the new writers to write online and show their writing abilities and skills. 

Hope you like this novel. 

If  you like this Urdu Novel Please Comments Blow, We are waiting for your kind response...

Thanks for your kind support...

بھوک اور بے بس ممتا


میں یہ چند سطریں بہتے آنسووُ اور روتے دل کے ساتھ لکھ رہی ہوں میں انہیں خون کے آنسو بھی کہہ سکتی ہوں سکھر اور سندھ کی عوام کی خوراک کے لیے تکتی راہیں جنہوں نے دل ویرانا کیا ہوا تھا کہ ایک اور  امتحان ہمارے سر پہ آن پڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔

مجھے رشک آرہا ہے ان لیڈروں پہ جو ایک جگہ تو کہہ رہے ہیں کہ وائرس جان لیوا ہے لیکن اس غربت کا کیا جو چھوٹے بچوں سے لے کر بڑوں بھوڑوں تک کا خون پیتی جا رہی ہے ایک روٹی کے لیے آج بچہ بچہ تڑپ رہا ہے افسوس کے ساتھ لیکن امداد کے نام پہ خدا جانے یہ حکومت کیا کر رہی ہے مجھے افسوس بہت افسوس ہوا اور میرا دل خون کے آنسو رویا اس وقت جب میں معمول کے مطابق فیس بک استعمال کر رہی تھی اور میری ہی ایک پوسٹ پہ کسی لڑکی کی آئی ڈی نے کچھ الفاظ لکھے۔۔۔۔۔

جو مجھے گوارا نہ گزرے اور میں نے اس سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھنے کے لیے اسے الگ سے میسج کیا تو اس کا کہنا یہ تھا کہ میں نہیں جانتی میں نے آپکی پوسٹ پہ ایسا کیوں لکھا لیکن میں کچھ ڈپریشن میں تھی سو اس لیے میں نے انجانے میں کچھ الفاظ لکھ دیے آپکی پوسٹ پہ۔۔۔۔

جب میں نے اس سے یہ کہا کہ تمہارا مجھے اس طرح کے الفاظ اچھے نہیں لگے تو اس نے مجھے ایک وائس میسج بھیجا جس میں وہ اپنی سسکیوں کو روکتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میرے بچے دو دن سے بھوکے ہیں اور میرے گھر میں آٹا نہیں ہے۔۔۔

میرے بچوں کی آواز آپکو پیچھے سے آرہی ہو گی جو ماما کھانا کھانا کہہ رہے تھء یہ ڈرامہ نہیں تھا مجھے سچ میں صاف الفاظ میں "کھانا ماما کھانا کی آواز آرہی تھی۔۔۔۔۔۔ 

وہ آواز جیسے ہی میرے کانوں میں پڑی مجھے ایسا لگا جیسے میرے جسم میں ٹھنڈی لہر دوڑی ہو اور کان بلکل سن ہو گئے ہوں میرے وہ ہاتھ کانپنے لگے تھے جن سے میں اسکی کلاس لے رہی تھی لیکن میں نہیں جانتی کہ میں نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔۔

اسکے بعد اسنے مجھے بتایا کہ عمران خان کی حکومت نے کرایہ معاف کردیا یے پردیسوں کو جو دوسرے شہروں یا کہیں بھی کرایہ کے گھر میں رہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرایہ داروں نے کرایہ نہیں دیا اور حکومت نے امداد کے نام میں ہمارے گھروں میں ڑوٹی کے لالے پڑوا دیے ہیں فروری کے مہینے سے سن رہی ہوں لیکن ابھی تک امداد نہیں ملی میں کہاں سے اپنے ان دو بچوں کو کھانا کھلاوُں؟ 
آس نے اتنا ہی کہہ کر کال کاٹ دی اور میں ابھی تک دھجکے میں تھی کہ میرے کانوں نے ایسا سنا ہے کسی روتی ماں کی سسکیاں اس کے ضبط کرتے آنسوو کو سنا ہے میرا دل تڑپ رہا ہے وہ بچوں کی" ماما کھانا " لی آواز سن کر کال بند ہو جانے کے بعد بھی میرے لیے وہ کال چل رہی تھی۔۔۔

بچوں کی وہ آواز اور روتی ماں کی سسکیاں میرے کانوں میں جیسے رقص کرنے لگی ہوں انکی آواز جیسے میرے کمرے کی درودیوار سے لگ کر واپس میرے کانوں میں گونج رہی ہو۔۔۔ 

عمران خان اور اس کے کارکنز جنہوں نے امداد روٹی کا وعدہ کیا تھا انکی زبان کو تالے لگے ہوئے ہیں اب۔۔۔

ایکسپریس نیوز چیننل میں سن رہی۔ تھی کہ شاہ حمود قریشی ملتان میں اپنے کارکن کی جھولیاں بھر رہے ہیں سقرا راشن ان کو دے رہے ہیں۔۔ 

غریبوں کو کون پوچھتا ہے اس دو ٹکے کی حکومت میں میں مانتی ہی نہیں کہ تبدیلی آئی ہے تبدیلی کے نام پہ لوگوں کے پیٹ کاٹے جا رہے ہیں۔۔۔
کرونا کا اندازہ آئے دن لگایا جا رہا ہے لیکن اس قیامت کا نہیں جو لوگوں کے گھر میں ہے۔۔۔

یہاں حکومت کو باہر کی امداد فنڈ اور ڈیم کی پڑی ہے ۔۔۔۔۔۔
وغیرہ وغیرہ میں ان باتوں کو دہرانا بھی بدتہزیبی سمجھتی ہوں اس موقع پہ کسی شخص کو سیاست کرنا زیب نہیں دیتا ۔۔۔۔۔

میں یہ کالم نہیں لکھ رہی جو دل میں آرہا ہے وہ لکھ رہی ہوں میں کیا کہوں جو اس جہالت غربت میں مر رہے ہیں جو امداد کی امید ابھی بھی لگائے بیٹھے ہیں وہ احمق ہیں ؟ 

میں بس ایسے لوگوں کے بارے میں صرف یہی کہوں گی کہ بھوک لیڈر کو بھی اور بادشاہ کو بھی گھٹنوں پہ لے آتی ہے میں چند سطرے لکھ رہی ہوں ویسے لکھنے کو بہت کچھ تھا لیکن ۔۔۔۔۔

سارے دعوے وعدے دھرے کے دھرے رہ گِئے ہیں اب تک کسی ایک شخص سے بھی نہیں سنا دور دور تک کہ امداد ملی ہو ۔۔۔۔۔

ملتان میں ایک عورت جو تین دن سے امداد کے لیے شناختی کارڈ لے کر دفتر کے چکر لگا رہی تھی وہ ممتا بھیڑ کی زد میں آکر مر گئی اور کسی لیڈر نے اس ممتا کے گھر والوں کو امداد کیا افسوس تک نہیں کیا 

آج سسکیوں سے رونے والی بھی ایک ممتا تھی اور کچھ دنوں پہلے مرنےوالے بھی ۔۔۔۔۔۔

کوئی باپ خود اور بیٹی کو زہر دے کر خود قبر کھود کر اسکے پاس جا کر مر جاتے ہیں تو کوئی ممتا بچوں سمیت خود کو زہر دے دیتی ہے۔۔۔۔۔
حضرت علیؓ گھر آئے اور کہا فاطمہ بچوں سے کہہ دو کہ انکا باپ انہیں کپڑے نہیں خرید کر دے سکتا ۔۔۔

عید کا دن آگیا ؓامیہ بنیہ کا سردوار اور انکے بچے عید ملنے آرہے ہیں تھوڑی دیر بعد دیکھا تو بچے بھی ملنے آرہے ہیں امیر المومینین کی حیثت سے بچے باپ کو ملنے آرہے ہیں اور انکے جسموں پہ پرانا لباس ہے حضرے علی انکو دیکھ کر سرداروں کے بچوں کو دیکھیں جو اعلا پوشاک میں ۔۔۔

ارے اس باپ سے پوچھو جو سب کچھ کر سکتا ہو لیکن مٹھی بند کرلے کہ حرام کی طرف نہیں جانا بچوں کی طرف دیکھا تو آنکھیں ڈب ڈبا گئیں آنکھوں میں آنسو آگئے بولے بچوں آج تمہیں آپنے باپ سے گلہ تو ہو گا کہ آآ
آج ہمارے باپ نے کپڑے ہی نہ لے کر دیے انکے ایک بیٹے ہیں عبدلملک کہنے لگے ابا جان آپکو مبارک ہو آپ نے قومی خزانے میں بددیانتی نہیں کی آپکو مبارک ہو آج ہمارا سر بلند ہے ہم شرمندہ نہیں ہیں انسانوں کو کپڑوں میں نہیں تولہ جاتا 

آج کی ہماری دنیا اور حکمران اپنے خزانے بھر رہے ہیں اعلاہ سے اعلاہ لباس پہنے ہوئے ہیں نوکر انکے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں انکو کوئی فرق نہیں پتا عید پہ کتنے بچوں نے نئے کپڑوں پہ آہیں بھری ہیں وہ نہیں جانتے بھوک کیا ہوتی ہے وہ نہیں جانتے خالی جیب باپ بچوں سے کیسے سامنا کرے گا 
گزرشہ دنوں صداقت کا زکر کیا تھا جیسے انگلش میں پوسٹ ٹروتھ کہتے ہیں یہ ایک نئی بیماری ہے ہم سچ کا یقین پہلے کرتے ہیں پھر اس پہ دلائل دینا شروع کرتے ہیں بلکل یہی حال ہماری حکومت کا ہے جو غریب طبقے کو امید دلوا کر اب فاقے اور بہانوں کا رونا رو رہے ہیں اور غریب اب بھی روٹی کی امید امداد کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدرا اگر روٹی دے نہیں سکتے تو امید بھی نہ دلوائیں غریط طبقے کو ۔۔۔۔  
بہر حال اس وقت آپکی عید خراب کر دی دکھ تکلیفیں اپنی جگہ لیکن رمضان کا مقدس مہنہ تو ایک روحانی حقیقت ہے لیکن اس وقت میں بھی لوگ سحری افطاری میں بے بس تھے جنکے پاس پانی کے علاوہ ایک کھجور بھی نہیں تھا سحر افطار کے لیے۔۔۔۔۔

اللہ ہمیں اس وبا سے محفوظ رکھے اور جتنے لوگ کھانے کی تکتی آنکھون سے انتظار کر رہے ہیں انکے لیے سچا حکمران علیؓ جیسا بیجھے جو انکے زخموں پہ مرہم رکھ سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شدہ


No comments